Thursday 13 June 2013

1 comment:

  1. ملک کے معروف ریسرچ اسکالر اور ہر دلعزیز ٹی وی میزبان و براڈ کاسٹر ڈاکٹر عامر لیاقت حسین نے وقت نیوز کے حالات حاضرہ کے پروگرام ایٹ پی ایم ود فریحہ ادریس میں
    کیا دہشت گردی کے بغیر ترقی ممکن ہے؟ ، طالبان سے مذاکرات اور زیارت میں بانی پاکستان کی رہائش گاہ کی تباہی پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آج پوری قوم اس اندوہناک واقعہ پر شرمندہ ہے، آپ کی تمام کاوشیں اور مہمانان کے خیالات لائق تحسین ہیں۔ مگر حقائق سے منہ نہیں موڑا جا سکتا، کہ ہم ایک ٹیبل پر متحد ہوجائیں گے۔ امریکا نے قطر میں طالبان کا دفتر تو کھلوادیا، مگر ابھی تک ہم یہی طے نہیں کر سکے کہ ان سے مذاکرات کیے جائیں یا نہ کیے جائیں۔ میں میاں نواز شریف اور خاص طور پر عمران خان صاحب کے اقدامات کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ کہ ان دونوں کو مینڈیٹ ملا ہے، اور یہ دونوں طالبان سے مذاکرات کے حامی ہیں۔ انہیں قوم نے مینڈیٹ دیا ہے اور یہ بہت مشکل فیصلہ ہے کہ کہ طالبان سے مذاکرات کیے جائیں، مگر ہم ابھی تک قوم کو اس بات پر ہی نہیں لا سکے ہیں ، متحد ہی نہیں کر سکے ہیں کہ طالبان سے مذاکرات کیے جائیں یا نہیں۔ قوم کا قائد اعظم کی زیارت کی تباہی پر قوم کی خاموشی اور سخت رد عمل کا نہ آنا قابل تشویش ہے۔ میں تو آج جو کچھ ہوں قائد اعظم کی وجہ سے ہوں۔ میں تمام رہنمائوں سے یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ اپنے بچوں کو قائد اعظم کی رہائش گاہ، سندھ مدرسہ الاسلام اور مزار قائد دکھا دیجیے کیونکہ مجھے لگتا ہے کہ یہ بھی مٹا دی جائیں گی۔ ہمارے حکمرانوں کو فرق ہی نہیں پڑا اتنا بڑا واقعہ ہوگیا۔ قائد اعظم کی خوشبو چلی گئی، ان کی یادیں چلی گئیں۔ دوبارہ بنانا حل نہیں ہے۔
    اگر قائد اعظم بانی پاکستان سے جو ظلم ہوا ہے اس پر حکومت پاکستان کی جانب سے وہ رد عمل نہیں آیا۔ بانی پاکستان کی رہائش گاہ پر صرف ایک آدمی تعینات تھا۔ بلوچستان کے حالات کے پیش نظر وہاں حفاظتی انتظامات ہونے چاہیے تھے۔ جبکہ حکومت جانتی ہے کہ وہاں پاکستان کا قومی ترانہ تک نہیں پڑھا جا سکتا۔ ان حالات میں بانی پاکستان کی زیارت کی رہائش گاہ پر صرف ایک محافظ تعینات تھا۔

    ReplyDelete